………پیٹی بھائی کا نوحہ

وہ 26 سال کا ایک نوجوان تھا، کتابوں کا شائق، علم کا متلاشی، گفتگو میں تہذیب کا قائل، اس کے لباس کا ذوق بھی غضب کا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لڑکیاں تو بس اس پر مرتی تھیں مگر عمیر کو کسی کی پرواہ نہیں تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کو تو بس صحافی بننے کا شوق تھا۔

راولپنڈی کے رہائشی صحافت کے رسیا اس نوجوان نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹرز کیا تھا، اس کا گریڈ بھی تو کتنا اچھا بنا تھا، عمیر ظہور کا جی پی اے 3٫82 تھا، اس کے ہم جماعت طلبہ اور اساتذہ کو یقین تھا کہ وہ ایک دن ضرور بڑا صحافی بنے گا

اس کے ہم جماعت اس سے کہتے تھے کہ انصار عباسی کی انوسٹی گیشن رپورٹس تمھاری صلاحیتوں کے آگے فیل ہیں، تم جاوید چوہدری سے اچھا لکھتے ہو، ایک دن تمھاری خبر کے حصول کے ذرائع کامران خان سے زیادہ ہونگے، ارے طلعت حسین اور افتخاراحمد تمھارے آگے کیا بیچتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم سپر جینئس ہو عمیر سپر جینئس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوستوں کی یہ باتیں سنکر عمیر شرما سا جاتا اور ایسا نہیں تھا کہ دوست اس کو مکھن لگاتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اسکو مائیک پکڑا کر کیمرے کے سامنے بٹھا دیا جاتا تو اسکرپٹ کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سیاست اور معیشت پر بے تکان بولتاتھا اور کیا خوب بولتا تھا کہ سننے والے انگشت بدنداں رہ جاتے تھے۔ میرے خیال میں عمیر کی صلاحیتوں میں جہاں اس کی فطری قابلیت نے اہم کردار ادا کیا تھا، وہیں اس کی محنت بھی مثالی تھی، جب بریک ٹائم میں سب دوست کلاس سے باہر چلے جاتے، عمیر کتابوں سے مغز ماری کر رہا ہوتا تھا۔ یونیورسٹی کا وقت ختم ہونے کے بعد وہ اکثر لائبریری میں ہی پایا جاتا تھا۔

عمیر کے ٹیچر اور اسلامک یونیورسٹی میں میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ڈاکٹر ظفر اقبال کو تو اپنے اس اسٹوڈنٹ پر ناز تھا، وہ کہتے تھے کہ عمیر جیسے نوجوان صدیوں میں پیدا ہوتےہیں۔

عمیر ظہور کے سارے بھائی تعلیم یافتہ اور اپنی اپنی جگہ خوش باش تھے، گھر میں کوئِ معاشی مسئلہ بھی نہیں تھا، اس کے والد ائیر فورس کے ریٹائرڈ آفیسر تھے، ایسے میں عمیر کیلئے دور دور تک میدان صاف تھا، اس نے جم کر محنت کی، ہر کلاس میں پوزیشن ہولڈر رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی تو زندگی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نت نئے مرحلوں سے گذرتی رہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج جو ہے  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کل نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  سب بدل جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمیر کی زندگی میں بھی بہت کچھ بدلا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوست بدلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں بدلیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر نہ بدلہ تو اس کا صحافی بننے کا شوق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ کہتے ہیں نا کہ شوق کا کوئی مول نہیں ۔ ۔ ۔ بس عمیر کے ساتھ بھی یہی کچھ معاملہ تھا، اپنی پڑھائی کے دوران ہی اس نے میڈیا آرگنائزیشنز میں آنا جانا شروع کردیا ۔ ۔ ۔ ۔ اس کو پتہ تھا کہ بڑا بننے کیلئے بڑی محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے محنت شروع کردی تھی مگر عمیر کو پتہ نہیں تھا کہ میڈیا اس نقاب پوش حسینہ کی طرح ہے، جس کے چہرے پر نقاب پڑا رہے تو اچھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس حسینہ کی چشم آہو کی فسوں خیزی کے شکار لوگوں کو اس کے اندر کی کراہیت کا پتہ نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حیسنہ بہت بدصورت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمیر اس کی آنکھوں کے سحر کا شکار تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اس نے ایک مقامی ہفت روزہ اخبار میں بطور ٹرینی ملازمت اختیار کی اوراس کے ایڈیٹر نے عمیر کو جھاڑو لگانے کا کہا تو اس حسینہ کے چہرے سے نقاب اتر گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بدصورت چڑیل عمیر کے سامنے کھڑی ہوکر قہقہے لگانے لگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب عمیر نے حالیہ ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمیر کا دل ٹوٹ گیا

اور ایسا پہلی دفعہ تو ہوا نہیں تھا، گریجویشن کے دوران عمیر نے ایک اردو روزنامے میں بطور ٹرینی جاب کی تھی، اس کو کہا گیا تھا کہ گریجویشن کی تکمیل کے بعد اس کو باقاعدہ جاب پر رکھ لیں گے مگر عمیر کو وہ جاب کبھی نہیں ملی، وہ کون سی میڈیا آرگنائزیشن تھی جس میں عمیر نے اپلائی نہیں کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ در در کی خاک چھان ماری اور در در نے خاک چٹوادی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمیر بس عمیر ہی رہا  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صحافی عمیر ظہور صاحب نہ بن سکا

یہ وقت بڑا سخت تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمیر مر رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہ ٹوٹ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس کے خواب چکنا چور ہورہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  عمیر ریزہ ریزہ ہو رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کوئی تو سیمٹتا اسکو یار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  عمیر بکھر رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس کے اندر کا طلعت حسین اسی پر چیخ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  افتخار احمد کے تیکھے سوالات کی آوازیں آرے کی طرح عمیر کی ذات کو چیر رہی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کامران خان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  عمیر کے اندر خود اس کے خلاف دلیلیں دے رہا تھا

بس کرو بس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمیر چلایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بکواس ہے یہ میڈیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سارے صحافی چالو ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جھوٹے ہیں سب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صحافت بکواس ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمیر سسکتے وجود اور کانپتے ہونٹوں سے اپنے عزم کو گالیاں دے رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ہاتھ لز رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے

یہ 14 جون 2011ء کی بات ہے، اس شام عمیر کے کمرے سے ایک لاش ملی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  لوگ کہتے ہیں کہ یہ عمیر کی لاش تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس نے خود کشی کر لی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مجھے تو نہیں لگتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہ تو امیدوں کا لاشہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔۔  آرزئوں کا جنازہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ارے وہ میڈیا کے منہ پر طمانچہ تھا طمانچہ

(یہ تحریر 14 جولائی 2012 کو دی نیوز ٹرائب میں شائع ہوئی)

About Usman Ghazi

I'm Journalist, Script writer
This entry was posted in Usman Ghazi and tagged , , , , , , , , . Bookmark the permalink.

1 Response to ………پیٹی بھائی کا نوحہ

  1. Dania says:

    Paiti bhai ka noha bohat he umda aur dil ko ansuon sy rulanay wali behtareen tehreer hai…hamary moashray k mu pay ek tamancha hai..shyad k koi bund ankhon wala is kahani ko parh kr apni ankhain khol lay….warna najanay kitnay umair zahoor tayyar hain apni jan day dynay ko…

Leave a comment